ایک نظر ادھر بھی .......... ہما را نظام تعلیم
محترم قارئین ! پا کستان میں پچھلی چند دھا ئیوں میں سکولز ، کالجز اوریو نیورسٹیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضا فہ ہوا ہے ۔ لیکن اس کے با وجود اقتصادی پسما ند گی کے ساتھ ساتھ اخلا قی گرا وٹ میں اضا فہ ہو اہے ۔انگریزوں کے زما نے میں جب سکول اسا تذہ کو تعینا تی کیلئے ٹیسٹ لیا جاتا ہے تو ان کی تعلیمی قا بلیت کے ساتھ ساتھ انکا خا ندا نی پس منظر بھی دیکھا جا تا کیو نکہ ان کی یہ سوچ تھی کہ ایک اچھے خاندا ن کا استاد ہی اچھی تعلیم دیکر طلبا ء کو اس قا بل بنا سکتا ہے کہ وہ زند گی کے ہر میدان میں محنت اورجدو جہد سے آگے بڑھ سکے اور حا لات کا مقا بلہ کر سکے ۔ لیکن آج کے دور میں اقربا ء پروری ، سیاست ، سفارش اور رشوت کی بنیاد پر تعینا تیاں کی جا تی ہیں ۔
جس طرح آئے روز تعلیمی اداروں( خواہ وہ سرکا ری ہیں یا پرائیوٹ ) میں اضا فہ ہو رہا ہے ، ہو نا تو یہ چا ہیے تھا کہ فارغ التحصیل طلبا ء و طالبات بر سر روزگار ہو تے ، ملک کے تعمیرا تی کا موں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے لیکن صورتحال اس سے برعکس ہے ۔پڑھے لکھے نو جوان بیروزگاری کی وجہ سے اس قدر ذہنی تنا ؤ کا شکار ہو جا تے ہیں کہ وہ چوری، ڈکیتی ، دہشت گردی اور خود کشی جیسے گندے عناصر پر مجبور ہو جا تے ہیں ۔ جس کی وجہ سے آج کا نو جوان در بدر کی ٹھو کریں کھا نے پر مجبور ہو جا تا ہے اور اپنی اصل پہچان کھو بیٹھتا ہے ۔ان محرکات کی اصل وجہ ہما رے بنیا دی نظام تعلیم میں خرا بی ہے ۔
یہی و جہ ہے کہ بہترین تعلیمی ادارے ہو نے کے باوجود ہمارا نظام تعلیم اس معا شرے میں طبقا تی اور لسا نی تقسیم کا انتشار پیدا کر رہا ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کے عروج کی بڑی اور بنیا دی وجہ تعلیم تھی کیو نکہ ان کے سامنے ایک مقصد تھا اور اسی مقصد کے تحت وہ عروج کی بلند یوں کو چھو تے گئے ۔آج بھی مغربی ممالک میں مسلما نوں کی لکھی ہو ئی کتا بوں کو پڑھا یا جا تا ہے یہ شرف ان عظیم انسانوں اور مسلما نوں کو حاصل ہے جنہوں نے قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں علم و حکمت اور دانش مندی کے چراغ جلا ئے اور دنیا کو اندھیروں سے نکال کر امید کی کرن دکھا ئی ۔ہما راآج کا نو جوان جو کہ جدید دور کی پیداوار ہے ہر طرح کی سہو لتوں سے مزین اور ایک پر آسائش زند گی گزار رہا ہے ۔اعلیٰ تعلیم اور ڈگریاں حا صل کر نے کے باوجود شعور اور احساس ذمہ داری سے عاری نظر آتا ہے ۔کیو نکہ تعلیم کے ساتھ تربیت کا ہو نا بھی ضروری ہے ۔جس کی کمی آجکل کے تعلیمی نظام میں بہت شدت سے محسوس کی جا تی ہے ۔
افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہما رے نظام تعلیم میں میٹرک تک ایک طالب علم رٹا سسٹم کے تحت پڑھتا ہے لیکن اس کو سوشل سٹڈی اور پا کستان سٹڈی میں فرق واضع کر نے میں دقت کا سامنا کر نا پڑتا ہے ۔ ہما رے ہاں ہر پرائیویٹ سکول کا نظام تعلیم دوسرے سکول سے یکسر مختلف نظر آتا ہے ۔ ہر کو ئی اپنی مرضی کا سلیبس پڑھا رہا ہے ۔ جبکہ سرکا ری سکول اپنی جگہ آپ زبوں حا لی کا شکار ہیں ۔پسما ندہ علا قوں میں تو گورنمنٹ سکول کی بوسیدہ عمارت کو شادی ہال،ٹھیلے اور منڈی لگانے کی جگہ یا مویشی باندھنے کے لئے استعمال کیا جاتاہے۔اس کے باوجود سکولوں کا عملہ بھاری تنخواہیں وصول کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ مراعات بھی حاصل کرتے رہتے ہیں۔دوسری طرف پرائیوٹ سکولزمیں جہاں تعلیم اور قدرے بہتر ماحول فراہم کیا جاتا ہے،وہیں والدین کو بھاری فیس بھی ادا کرنی پڑتی ہے، اس کے باوجود طلباء انگریزی اور اردو میڈیم دو کشتیوں میں سوار کسی ایک پر بھی مکمل عبور حاصل نہیں کر پاتے اور اسطرح نجی سکولز کے مالکان کا کاروبار بھی چلتا رہتا ہے۔
ْْضرورت اس امر کی ہے کہ سنجیدگی سے اس اہم اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دی جائے۔نجی سطح سے حکومتی سطح تک ٹھو س اور مضبوط اقدامات سے ہی یقیناًنظام تعلیم میں مو ثر تبدیلی واقع ہوگی۔نصا ب میں اس طرح کے اسباق شامل کئے جائیں جن سے مستفید ہو کر طلباء عملی زندگی میں بہتر طریقے سے کوئی ہنر سیکھ سکیں۔ڈگریاں وصول کرنے کے بعد طلباء کو روزگارکے مواقع فراہم کئے جائیں۔بجٹ میں تعلیم کے لئے زیادہ سے زیادہ حصہ مختص کیا جائے۔اساتذہ کیلئے تربیتی ورکشاپس بھی منعقدکروائی جائیں۔اس انداز میں تربیت کی جائے کے نوجوان نسل دینی اقدار،معا شرے اور اپنے اسلاف کی اقدارسے منحرف نہ ہو۔ طبقاتی اور لسانی انتشار میں پڑنے کی بجائے اپنی ذات کو پہچاننے اور مادیت پرستی کی بجائے اسلامی جذبے اور حب ا لوطنی کے جذبے سے سر شار ہو۔ایسا نظام تعلیم جو افراد اور معا شرے کے درمیان اہم پُل کا کردار ادا کرے اور ملک حقیقی تر قی اور خوشحالی کی طرف گامزن ہو سکے۔
محترم قارئین ! پا کستان میں پچھلی چند دھا ئیوں میں سکولز ، کالجز اوریو نیورسٹیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضا فہ ہوا ہے ۔ لیکن اس کے با وجود اقتصادی پسما ند گی کے ساتھ ساتھ اخلا قی گرا وٹ میں اضا فہ ہو اہے ۔انگریزوں کے زما نے میں جب سکول اسا تذہ کو تعینا تی کیلئے ٹیسٹ لیا جاتا ہے تو ان کی تعلیمی قا بلیت کے ساتھ ساتھ انکا خا ندا نی پس منظر بھی دیکھا جا تا کیو نکہ ان کی یہ سوچ تھی کہ ایک اچھے خاندا ن کا استاد ہی اچھی تعلیم دیکر طلبا ء کو اس قا بل بنا سکتا ہے کہ وہ زند گی کے ہر میدان میں محنت اورجدو جہد سے آگے بڑھ سکے اور حا لات کا مقا بلہ کر سکے ۔ لیکن آج کے دور میں اقربا ء پروری ، سیاست ، سفارش اور رشوت کی بنیاد پر تعینا تیاں کی جا تی ہیں ۔
جس طرح آئے روز تعلیمی اداروں( خواہ وہ سرکا ری ہیں یا پرائیوٹ ) میں اضا فہ ہو رہا ہے ، ہو نا تو یہ چا ہیے تھا کہ فارغ التحصیل طلبا ء و طالبات بر سر روزگار ہو تے ، ملک کے تعمیرا تی کا موں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے لیکن صورتحال اس سے برعکس ہے ۔پڑھے لکھے نو جوان بیروزگاری کی وجہ سے اس قدر ذہنی تنا ؤ کا شکار ہو جا تے ہیں کہ وہ چوری، ڈکیتی ، دہشت گردی اور خود کشی جیسے گندے عناصر پر مجبور ہو جا تے ہیں ۔ جس کی وجہ سے آج کا نو جوان در بدر کی ٹھو کریں کھا نے پر مجبور ہو جا تا ہے اور اپنی اصل پہچان کھو بیٹھتا ہے ۔ان محرکات کی اصل وجہ ہما رے بنیا دی نظام تعلیم میں خرا بی ہے ۔
یہی و جہ ہے کہ بہترین تعلیمی ادارے ہو نے کے باوجود ہمارا نظام تعلیم اس معا شرے میں طبقا تی اور لسا نی تقسیم کا انتشار پیدا کر رہا ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کے عروج کی بڑی اور بنیا دی وجہ تعلیم تھی کیو نکہ ان کے سامنے ایک مقصد تھا اور اسی مقصد کے تحت وہ عروج کی بلند یوں کو چھو تے گئے ۔آج بھی مغربی ممالک میں مسلما نوں کی لکھی ہو ئی کتا بوں کو پڑھا یا جا تا ہے یہ شرف ان عظیم انسانوں اور مسلما نوں کو حاصل ہے جنہوں نے قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں علم و حکمت اور دانش مندی کے چراغ جلا ئے اور دنیا کو اندھیروں سے نکال کر امید کی کرن دکھا ئی ۔ہما راآج کا نو جوان جو کہ جدید دور کی پیداوار ہے ہر طرح کی سہو لتوں سے مزین اور ایک پر آسائش زند گی گزار رہا ہے ۔اعلیٰ تعلیم اور ڈگریاں حا صل کر نے کے باوجود شعور اور احساس ذمہ داری سے عاری نظر آتا ہے ۔کیو نکہ تعلیم کے ساتھ تربیت کا ہو نا بھی ضروری ہے ۔جس کی کمی آجکل کے تعلیمی نظام میں بہت شدت سے محسوس کی جا تی ہے ۔
افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہما رے نظام تعلیم میں میٹرک تک ایک طالب علم رٹا سسٹم کے تحت پڑھتا ہے لیکن اس کو سوشل سٹڈی اور پا کستان سٹڈی میں فرق واضع کر نے میں دقت کا سامنا کر نا پڑتا ہے ۔ ہما رے ہاں ہر پرائیویٹ سکول کا نظام تعلیم دوسرے سکول سے یکسر مختلف نظر آتا ہے ۔ ہر کو ئی اپنی مرضی کا سلیبس پڑھا رہا ہے ۔ جبکہ سرکا ری سکول اپنی جگہ آپ زبوں حا لی کا شکار ہیں ۔پسما ندہ علا قوں میں تو گورنمنٹ سکول کی بوسیدہ عمارت کو شادی ہال،ٹھیلے اور منڈی لگانے کی جگہ یا مویشی باندھنے کے لئے استعمال کیا جاتاہے۔اس کے باوجود سکولوں کا عملہ بھاری تنخواہیں وصول کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ مراعات بھی حاصل کرتے رہتے ہیں۔دوسری طرف پرائیوٹ سکولزمیں جہاں تعلیم اور قدرے بہتر ماحول فراہم کیا جاتا ہے،وہیں والدین کو بھاری فیس بھی ادا کرنی پڑتی ہے، اس کے باوجود طلباء انگریزی اور اردو میڈیم دو کشتیوں میں سوار کسی ایک پر بھی مکمل عبور حاصل نہیں کر پاتے اور اسطرح نجی سکولز کے مالکان کا کاروبار بھی چلتا رہتا ہے۔
ْْضرورت اس امر کی ہے کہ سنجیدگی سے اس اہم اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دی جائے۔نجی سطح سے حکومتی سطح تک ٹھو س اور مضبوط اقدامات سے ہی یقیناًنظام تعلیم میں مو ثر تبدیلی واقع ہوگی۔نصا ب میں اس طرح کے اسباق شامل کئے جائیں جن سے مستفید ہو کر طلباء عملی زندگی میں بہتر طریقے سے کوئی ہنر سیکھ سکیں۔ڈگریاں وصول کرنے کے بعد طلباء کو روزگارکے مواقع فراہم کئے جائیں۔بجٹ میں تعلیم کے لئے زیادہ سے زیادہ حصہ مختص کیا جائے۔اساتذہ کیلئے تربیتی ورکشاپس بھی منعقدکروائی جائیں۔اس انداز میں تربیت کی جائے کے نوجوان نسل دینی اقدار،معا شرے اور اپنے اسلاف کی اقدارسے منحرف نہ ہو۔ طبقاتی اور لسانی انتشار میں پڑنے کی بجائے اپنی ذات کو پہچاننے اور مادیت پرستی کی بجائے اسلامی جذبے اور حب ا لوطنی کے جذبے سے سر شار ہو۔ایسا نظام تعلیم جو افراد اور معا شرے کے درمیان اہم پُل کا کردار ادا کرے اور ملک حقیقی تر قی اور خوشحالی کی طرف گامزن ہو سکے۔