Friday, 24 October 2014

80فیصد طبقہ اصل فیصلہ دیگا ؟

معاشرے لوگوں سے بنتے ہیں
حلقہ این اے61کا 90فیصد ووٹ دیہی علاقوں میں ہے جبکہ پی پی22کا تقریبا80فیصد اور پی پی23کا سو فیصد ووٹ دیہی علاقوں میں ہے ۔ تلہ گنگ شہرکا ووٹ 20سے 25ہزار تک ہے ، شہری ووٹ کو تحریک انصاف کے رہنما تبدیلی کا نشان سمجھتے ہیں ، اور دیہاتوں میں بسنے والوں کوانہوں نے میڈیا کے رپورٹس کے مطابق ’’نیم مردہ ‘‘ کہا ؟ حالانکہ کسی بھی امیدوار کی جیت کا انحصار ہی دیہی علاقوں میں بسنے والے ووٹر کا ہوتا ہے ، جمہوریت میں پڑھے لکھے اور ایک ان پڑھ کا ووٹ برابر حیثیت رکھتا ہے لہذا یہ کہنا کہ دیہی علاقوں میں بسنے والے لوگ تحریک انصاف کے ’’انقلاب ‘‘ کی پہچان نہیں رکھتے درست نہیں ہے،
دیہی علاقوں میں رہنے والے ووٹر، تجربہ رکھتے ہیں ، گو کہ وہاں برادری ازم اور تعلق کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے فیصلوں نے پرانے اور گھاگ سیاستدانوں کوبھی حیران کر دیا تھا ، اس کی مثال حلقہ این اے61کے تینوں انتخابات ہیں ، جہاں ایک طرف چودھری پرویز الہی سابق وزیراعلی پنجاب تھے تو دوسری طرف اس وقت کے نووارد سیاستدان سردار محمد فیض ٹمن تھے ، چودھری پرویز الہی کیساتھ تمام بڑے سیاستدان اور علاقے کے کھڑپینچ کھڑے تھے لیکن پھر بھی فیض ٹمن جیت گئے ، اسی طرح دوبارہ سردار ممتا ز ٹمن نے بھی کامیابی حاصل کی ، اس کا مطلب ہے کہ دیہی علاقوں میں بسنے والا ووٹر بھی اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے ، لہذا تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ شہروں کیساتھ ساتھ دیہی علاقوں پر بھی توجہ دی جائے ، کیونکہ دیہی علاقوں میں رہنے والے بھی پاکستانی ہے ،سوچ اورآگہی نے نچلی سطح پر موجود دھڑے بندی کو بھی نقصان پہنچایا ہے جو یقیناًایک مثبت اورخوشگوار تبدیلی ہے ۔
مشرف کی پالیسیوں سے سب سے زیادہ نالاں ہی 80فیصد وہ طبقہ تھا جو دیہاتوں میں رہتا ہے ،لال مسجد،سانحہ کراچی ، بگٹی کا قتل ، خارجہ پالیسی کا یوٹرن، افغان جنگ میں امریکہ کیساتھ تعاون ، پاکستانیوں کو بیچنا ، کرپشن ، مخصوص لوگوں کو نوازنے کیخلاف دیہی علاقوں کے بسنے والوں نے زیادہ سخت جواب دیا، اور2008کے الیکشن میں مشرف اور اسکے حواری منہ چھپاتے پھر رہے تھے ۔اب دیہی علاقوں میں بسنے والا ووٹر بھی جاگ رہا ہے وہ سمجھ رہا ہے کہ کون کس کا آلہ کار بن چکا ہے ، اور پاکستان کا ہمدرد کو ن ہے ؟
وطن عزیز اس وقت لسانی ، مذہبی ، طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہے ، مجلس احرار کے رہنما امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے اس کی پیش گوئی 1946میں کی تھی ، آج سازشوں کے بھنور میں پھنسا پاکستان بحرانوں کاشکار ہے ، سیاست پاکستان کی بقاء کیلئے نہیں بلکہ اقتدار کیلئے کی جارہی ہے ، کوئی رائے ونڈ محل کی بات کرتا ہے تو کوئی بنی گالہ اور سرائے محل کی ، ہر جگہ پرتعیش بلاول ہاؤس بن رہے ہیں او ربات روٹی کپڑا مکان کی جاتی ہے ، کہیں حق اور انصاف کا نعرہ مستانہ لگایا جاتا ہے اوراس کے برعکس سول نافرمانی کے ذریعے ملک کو نقصان پہنچایا جاتاہے ، میرٹ اور گڈ گورنس کی رٹ لگانے والوں کو بھی حقدار صرف اپنے رشتہ دار ہی نظر آتے ہیں ۔
نفرت اورخونی انقلاب کے بجائے محبت اور امن کیساتھ تبدیلی کو ترجیح دی جائے ، کیونکہ ایسی تبدیلی پائیدار ہوگی جس میں خلوص اور محبت کی جھلک ہوگی ، بحیثیت مسلمان ہمارے پاس آفاقی دین ہے جو ہر آنیوالے دور ، ہر معاشرے ، ہر طبقے ، کیلئے رہنما کی حیثیت رکھتا ہے ،وطن عزیز بھی اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اب اس کو تجربہ گار بنانے کے بجائے اسلام کے آفاقی اصولوں کو اپناتے ہوئے آگے کی طرف دیکھا جائے تو جلد مثبت نتائج برآمد ہونگے ، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہر فردبدلے، عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو پہچاننا ہوگا ، معاشرے لوگوں سے بنتے ہیں ، اور بگڑے حالات کو سدھارنے کیلئے لوگوں کو ہی اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی ، آج انگریز قوم مہذب کہلاتی ہے حالانکہ وہ دین حق پر بھی نہیں ہیں لیکن انہوں نے حقوق العبادکو پہچان لیا ، اور مہذب ہوگئے ، اور جو امن کے داعی لازوال اور آفاقی دین اسلام کے پیروکار ہے وہ غیر مہذب ہوگئے اس کی وجہ ہے کہ ہم نے دین اسلام کی تعلیمات کو بھلا دیا ،صرف اپنے حق کو پہچانا اور دوسروں کیساتھ نفرت ، بغض ، حسد کا رویہ اپنا لیا ، طاقت، اثر و رسوخ کو عزت کا نشان سمجھ لیا ، کمزور کو دبا کر کامیابی نہیں ملتی بلکہ حقدار کو اس کا حق پہنچا کرہی انسان کامران ہوتا ہے ۔

No comments:

Post a Comment