Wednesday 15 October 2014

ذرا ک نظر ادھر بھی:تحریر، نبیلہ شمیم

ذرا ک نظر ادھر بھی:تحریر، نبیلہ شمیم

dhulli
تلہ گنگ تحصیل جسے شہیدوں اور غازیوں کی واحد تحصیل ہونےکا رتبہ اور مرتبہ حاصل ہے،یہ تحصیل 84 اور ایک اور محتاط اندازے کے مطابق چھیاسی گاﺅں دیہاتوں پر مشتمل ہے،اس علاقے کے گاﺅں کو عموماً گراں کہا جاتا ہے،اس تحصیل کا کوئی قصبہ یا گراں ایسا نہیں جہاں کسی نہ کسی شہید کی قبر نہ ہو،اس تحصیل کے مشرقی سمت دیہاتوں کا ایک بہت بڑا اور وسیع سلسلہ ہے یہاں پہ صوبائی اسمبلی کے دوجبکہ ایک قومی اسمبلی کا حلقہ ہے،ان دیہاتوں میں ایک گاﺅں یا گراں ڈھلی بھی ہے ،جو ڈھلی بھگٹال کے نام سے مشہور ہے جبکہ حقیقت میں ڈھلی اور بھگٹال دو الگ الگ گاﺅں ہیں مگر انتہائی قریب قریب واقع ہونے کی وجہ سے ان دونوں کو ہی ڈھلی بھگٹال کے نام سے جانا مانا جاتا ہے ،ڈھلی گاﺅں کی آبادی لگ بھگ چھ ہزار کے قریب ہے،فضا میں ہلکی خنکی لیے صبح کی پرنور روشنی جیسے ہی اپنے وجود سے نکل کر زندگی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے مرغوںکی آوازسارے گاﺅں میں گونج اٹھتی ہے اور کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صبح کا اجالا بار بار کہہ رہا ہو کہ اے اجلے لوگو اٹھو کہ منزل بہت ہی قریب ہے،اب مزید سوکے اپنا قیمتی وقت ضائع مت کر و اٹھو اور خدا کے بخشے ایک نئے دن کو اچھے اور مفید کاموں میں استعمال کرو،موذن اذان کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ اس نیند سے بیدار ہو جانا تمھارے حق میں بہتر ہے،اٹھو اور آجاﺅ دائمی فلاح اور کامیابی کی طرف،اذان کی آواز کان میں پڑتے ہی بزرگ مرد خود اٹھ کے شفقت،علی،تنویر ،عثمان اٹھ جاﺅ شاباش نماز کا وقت ہو گیا ہے کی آواز لگاتے ہیں ،بچے آنکھیں ملتے اٹھ کے بزرگوں کے پیچھے مسجد کی جانب رواں دواں نظر آتے ہیں ،مرد مسجد جاتے ہیں تو خواتین گھر میں نماز تلاوت اور تسبیح سے فارغ ہو کہ اپنی پکی اینٹوں سے بنے کچے چولہے پر چائے کی دیگچی چڑھا دیتی ہیں،چولہے سے اٹھتا دھواں لمبی قطار میں یوں بلند ہورہا ہوتا ہے جیسے پورے گھر کے گذرے کل کے غم دکھ اور تکالیف اپنے اندر سموئے ہمیشہ کے لیے دورروانہ ہو رہا ہے آہستہ آہستہ سورج کی شعاعیں اپنے اندر امید کی ایک نئی کرن لئے پورے گاﺅں میں اجالا کر دیتی ہیں،پرندے سویرے سویرے چہچہاتے اور اپنے مخصوص انداز میں اٹھکیلیاں کرتے کھیتوں کی طرف اس مزدور کی طرح رخ کر لیتے ہیں ،جس سے اس کا رزق وابستہ ہوتا ہے،خواتین بچوں کو ناشتہ دے کر ان کو سکول کے لیے روانہ کرتی ہیں،مرد اپنے مال مویشی کو اپنے آگے لگائے کھیتوں کی طرف چل پڑتے ہیں،جہاں لہلہاتے فصل ہوا سے سرگوشی کرتے ذکر الٰہی میں مشغول ہوتے ہیںاس گاﺅں میں پانچ اسکول ہیں جن میں سے دو گورنمنٹ ،دو پرائیویٹ اور ایک مکتب یعنی مدرسہ ہے جہاں غریب بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے،اس گاﺅں میں بھی برادری اور ذات پات کا سسٹم موجود ہے،یہاں ہر برادری اور ذات کے لوگ موجود ہیں،گاﺅں کی اپنی مخصوص پنجابی ثقافت ہے اور یہ لوگ اپنی اس ثقافت کے بارے میں انتہائی حساس ہیں،یہ پنجابی زبان کا استعمال کرتے ہیں،خوراک میں دیسی روٹی ،سبزی دال چاول ،گھی مکھن،لسی دودھ،چائے اور حلوے کا عام استعمال ہے،گرمیوں میں تندور کی گرم روٹی کو مکھن یا گھی سے چپڑ کر لسی کے ساتھ کھانے کا اپنا ایک الگ ہی مزا ہے جس کی لذت کا اندازہ کھائے بغیر ممکن ہی نہیں،اس کے علاوہ دیسی مرغیوں کے انڈے اور ان کا گوشت بھی عام استعمال کیا جاتا ہے،قربانی بھی یہ لوگ قربانی کی اصل روح کے مطابق کرتے ہیں یعنی گھر میں رکھا اور نازوں سے پال پوس کے جوان کیے گئے دنبے بکرے اور بیل کو ذبح کیا جاتا ہے،اس علاقے میں کسی بھی قسم کی انڈسٹری نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا واحد ذریعہ آمدن زراعت ہے،جسے اب آہستہ آہستہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیاجارہا ہے ،یہاں لوگ گندم ،مکئی ،باجرا جو ،چنے اور مونگ پھلی کاشت کرتے ہیں،شادی بیاہ میں برادری سسٹم،وٹہ سٹہ اس کے علاوہ ولیجوازم(ایک گاﺅں سے دوسرے گاﺅں) میں شادی کرنے کا رواج عام ہے اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی شادی میں گاﺅں کے تمام افراد کو مدعو کیا جاتا ہے،خواتین اپنے مخصوص انداز میں پنجابی گانے گاتی ہیں جو اصل میں ایک دعا یا نیک خواہشات کا اظہار ہوتا ہے،نکاح عموماً صبح کے وقت کیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے باقی کام کاج بھی مکمل کر سکیں،اس ثقافت میں جہیز کی لعنت اور اس کی نمائش کے جراثیم ابھی تک بدرجہ اتم موجود ہیں جن کا تعلیم کی ترقی کے بغیر خاتمہ تقریباً نا ممکن ہے،غریب والدین نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹی کا جہیز مکمل کرتے ہیں اور اس کے لیے نسلیں تک گروی رکھ دیتے ہیں صرف اس لیے کہ ان کی بیٹی کی آنیوالی زندگی پرسکون گذرے،دوسری شادی اور طلاق نہ ہونے کے برابر ہیں،گاﺅں کے نوجوانوں کا پسندیدہ کھیل کرکٹ ہے تاہم ہاکی یا فٹ بال کے ورلڈ کپ کے دوران یہ دونوں کھیل بھی نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کر لیتے ہیں مگر صرف وقتی طور پر،اس گاﺅں بلکہ علاقے میں خواتین ابھی تک مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں کھلیانوں میں کام کرتی ہیں اس کے علاوہ خواتین کی اکثریت ابھی تک پیروں فقیروں اور تعویذ گنڈوں پر یقین رکھتی ہے اور کئی دفعہ ان جعلی پیروں اور فقیروں سے اپنی عزت تک گنوا بیٹھتی ہیں اور پھر مدتوں ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہتی ہیں،یہ اپنے گھریلومسائل سلجھانے کے لیے بابوں اور ملنگو ں کے پاس جاتی ہیں اور نتیجے میں پچھلے مسائل حل کیا ہوں نئے مسائل میں پھنس جاتی ہیں تاہم اب نوجوان نسل جو تعلیم اور شعور کا سفر تیزی سے طے کر رہی ہے کافی حد تک اس پیر پرستی سے بیزار نظر آتی ہے،اب بچے بچیاں دونوں آہستہ آہستہ تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں ،اگرچہ وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ گاﺅں کی ثقافت میں بھی تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے،لیکن تاہم اس بڑے گاﺅں میں علاج معالجے کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے،لوگوں کو بیماری کی صورت میں تلہ گنگ اور چکوال جانا پڑتا ہے،اور مرض کی نوعیت اگر شدید ہو تو اسے راولپنڈی لے جانا پڑتا ہے،اکثر غریب اور نادار لوگ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے مکمل علاج نہیں کرواسکتے،میری اس علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے سے گذارش ہے کہ ان لوگوں نے آپ کو اپنا نمائندہ منتخب کیا آپ کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجا کہ آپ ان کے مسائل حل کریں گے تو خدارا ان کی امیدوں پر پانی مت پھیریں اور ان کی بہتری اور فلاح کے لیے ہر مکن اقدامات کریں،
آخر میں ایک نظم کے چند اشعار
وہ جن درختوں کی چھاﺅں سے
مسافروں کو اٹھا دیا تھا
اگلے برس ان درختوں سے پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
گذرے تھے ہم پہ رنج سارے زمانے کے
جو خود پہ گذرے تو لوگ سمجھے
وہ گاﺅں کا ایک ضعیف دہکاں،سڑک کے بننے پہ
کیوں بلاوجہ خفا تھا،
جو اس کے بچے شہر جا کے کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
اور جب اس کے کمرے سے اس کا بے حس بدن نکلا
تو کوئی نہ سمجھ سکا یہ فلسفہ کہ کیوں مر گئی یہ اس عمر میں
جب خود محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے

No comments:

Post a Comment