Thursday 23 October 2014

sab say baraa Aalam

حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے هیں کے ایک دن قاضی کی عدالت میں کسی علمی مسئلے پر بحث هو رهی تهی. اسی دوران ایک خسته حال درویش داخل هوا اور موزوں مقام پر بیٹھ گیا. حاضرین مجلس اس کی ظاهر حالت سے اسے بالکل معمولی حیثیت کا آدمی خیال کیا اور وهاں سے اٹها کر جوتوں کے قریب بٹها دیا. درویش اس بات سے غم زده هوا لیکن خاموش رها.
بحث کسی بهت هی اهم علمی مسئلے پر هو وهی تهی اور اتفاق ایسا تها کے کوئی بهی اس مسئلے کو مناسب طور پر حل کرنے میں کامیاب نه هو رها تها. وه غصے میں ایک دوسرے کو لاجواب کرنے کی کوشش کر رهے تهے. ان کی گردنوں کی رگیں پهولی هوئی تهی اور کف اژا رهے تهے.
درویش خاموش بیٹها کپھ دیران کا یه دنگل دیکهتا رها. اور پهر بلند آواز میں بولا. حضرات اگر اجازت هو تو اس بارے میں میں کپھ عرض کروں؟
قاضی نے فورا اجازات دے دی اور درویش نے شیریں گفتاری اور استدلال کے ساتھ ایسی آسانی سے وه مشکل مسئله حل کر دیا کے سب حیران ره گئے.
اب حاضریں مجلس کو اندازه هوا کے چیتهڑوں میں لپٹا هوا یه شخص تو بہت بڑا عالم هے, قاضی فورا اپنی جگه سے اٹها اور اپنے سر سے دستار اتار کر اسے پیش کرنے هوئے بولا. افسوس هے کہ پهلے آپ کے علمی مرتبے سے آگاهی حاصل نه هوسکی. حقیقت تو یه هے کے اس دستار کے حقدار آپ زیاده هیں.
درویش نے دستار لینے سے انکار کیا اور یه کہہ کر وهاں سے چلا گیا کہ میں اس غرور کی پوٹلی کو هرگز اپنے سر پر نه رکهوں گا.
یاد رکهو کہ انسان کا رتبه بہتر لباس سے نہيں بہتر علم سے زیاده هوتا هے. کوئی شخص صرف سر بڑا هونے سے عالم نہیں بن جاتا. سب سے بڑا تو پتھر بھی هوتا هے.

No comments:

Post a Comment