Friday 24 October 2014

Social Web: ذرا ک نظر ادھر بھی:تحریر، نبیلہ شمیم

Social Web: ذرا ک نظر ادھر بھی:تحریر، نبیلہ شمیم: ذرا ک نظر ادھر بھی:تحریر، نبیلہ شمیم تلہ گنگ تحصیل جسے شہیدوں اور غازیوں کی واحد تحصیل ہونےکا رتبہ اور مرتبہ حاصل ہے،یہ تحصیل 84 اور ...

Social Web: About me

Social Web: About me:   نام  نبیلہ  شمیم  گریجویٹس  : اف  جی  ڈگری  کالج عابد مجید  روڈ  ماسٹر : فاطمہ  جننہ وومن یونیورسٹی راولپنڈی  رہاھش : راولپنڈی ...

80فیصد طبقہ اصل فیصلہ دیگا ؟

معاشرے لوگوں سے بنتے ہیں
حلقہ این اے61کا 90فیصد ووٹ دیہی علاقوں میں ہے جبکہ پی پی22کا تقریبا80فیصد اور پی پی23کا سو فیصد ووٹ دیہی علاقوں میں ہے ۔ تلہ گنگ شہرکا ووٹ 20سے 25ہزار تک ہے ، شہری ووٹ کو تحریک انصاف کے رہنما تبدیلی کا نشان سمجھتے ہیں ، اور دیہاتوں میں بسنے والوں کوانہوں نے میڈیا کے رپورٹس کے مطابق ’’نیم مردہ ‘‘ کہا ؟ حالانکہ کسی بھی امیدوار کی جیت کا انحصار ہی دیہی علاقوں میں بسنے والے ووٹر کا ہوتا ہے ، جمہوریت میں پڑھے لکھے اور ایک ان پڑھ کا ووٹ برابر حیثیت رکھتا ہے لہذا یہ کہنا کہ دیہی علاقوں میں بسنے والے لوگ تحریک انصاف کے ’’انقلاب ‘‘ کی پہچان نہیں رکھتے درست نہیں ہے،
دیہی علاقوں میں رہنے والے ووٹر، تجربہ رکھتے ہیں ، گو کہ وہاں برادری ازم اور تعلق کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے فیصلوں نے پرانے اور گھاگ سیاستدانوں کوبھی حیران کر دیا تھا ، اس کی مثال حلقہ این اے61کے تینوں انتخابات ہیں ، جہاں ایک طرف چودھری پرویز الہی سابق وزیراعلی پنجاب تھے تو دوسری طرف اس وقت کے نووارد سیاستدان سردار محمد فیض ٹمن تھے ، چودھری پرویز الہی کیساتھ تمام بڑے سیاستدان اور علاقے کے کھڑپینچ کھڑے تھے لیکن پھر بھی فیض ٹمن جیت گئے ، اسی طرح دوبارہ سردار ممتا ز ٹمن نے بھی کامیابی حاصل کی ، اس کا مطلب ہے کہ دیہی علاقوں میں بسنے والا ووٹر بھی اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے ، لہذا تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ شہروں کیساتھ ساتھ دیہی علاقوں پر بھی توجہ دی جائے ، کیونکہ دیہی علاقوں میں رہنے والے بھی پاکستانی ہے ،سوچ اورآگہی نے نچلی سطح پر موجود دھڑے بندی کو بھی نقصان پہنچایا ہے جو یقیناًایک مثبت اورخوشگوار تبدیلی ہے ۔
مشرف کی پالیسیوں سے سب سے زیادہ نالاں ہی 80فیصد وہ طبقہ تھا جو دیہاتوں میں رہتا ہے ،لال مسجد،سانحہ کراچی ، بگٹی کا قتل ، خارجہ پالیسی کا یوٹرن، افغان جنگ میں امریکہ کیساتھ تعاون ، پاکستانیوں کو بیچنا ، کرپشن ، مخصوص لوگوں کو نوازنے کیخلاف دیہی علاقوں کے بسنے والوں نے زیادہ سخت جواب دیا، اور2008کے الیکشن میں مشرف اور اسکے حواری منہ چھپاتے پھر رہے تھے ۔اب دیہی علاقوں میں بسنے والا ووٹر بھی جاگ رہا ہے وہ سمجھ رہا ہے کہ کون کس کا آلہ کار بن چکا ہے ، اور پاکستان کا ہمدرد کو ن ہے ؟
وطن عزیز اس وقت لسانی ، مذہبی ، طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہے ، مجلس احرار کے رہنما امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے اس کی پیش گوئی 1946میں کی تھی ، آج سازشوں کے بھنور میں پھنسا پاکستان بحرانوں کاشکار ہے ، سیاست پاکستان کی بقاء کیلئے نہیں بلکہ اقتدار کیلئے کی جارہی ہے ، کوئی رائے ونڈ محل کی بات کرتا ہے تو کوئی بنی گالہ اور سرائے محل کی ، ہر جگہ پرتعیش بلاول ہاؤس بن رہے ہیں او ربات روٹی کپڑا مکان کی جاتی ہے ، کہیں حق اور انصاف کا نعرہ مستانہ لگایا جاتا ہے اوراس کے برعکس سول نافرمانی کے ذریعے ملک کو نقصان پہنچایا جاتاہے ، میرٹ اور گڈ گورنس کی رٹ لگانے والوں کو بھی حقدار صرف اپنے رشتہ دار ہی نظر آتے ہیں ۔
نفرت اورخونی انقلاب کے بجائے محبت اور امن کیساتھ تبدیلی کو ترجیح دی جائے ، کیونکہ ایسی تبدیلی پائیدار ہوگی جس میں خلوص اور محبت کی جھلک ہوگی ، بحیثیت مسلمان ہمارے پاس آفاقی دین ہے جو ہر آنیوالے دور ، ہر معاشرے ، ہر طبقے ، کیلئے رہنما کی حیثیت رکھتا ہے ،وطن عزیز بھی اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اب اس کو تجربہ گار بنانے کے بجائے اسلام کے آفاقی اصولوں کو اپناتے ہوئے آگے کی طرف دیکھا جائے تو جلد مثبت نتائج برآمد ہونگے ، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہر فردبدلے، عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو پہچاننا ہوگا ، معاشرے لوگوں سے بنتے ہیں ، اور بگڑے حالات کو سدھارنے کیلئے لوگوں کو ہی اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی ، آج انگریز قوم مہذب کہلاتی ہے حالانکہ وہ دین حق پر بھی نہیں ہیں لیکن انہوں نے حقوق العبادکو پہچان لیا ، اور مہذب ہوگئے ، اور جو امن کے داعی لازوال اور آفاقی دین اسلام کے پیروکار ہے وہ غیر مہذب ہوگئے اس کی وجہ ہے کہ ہم نے دین اسلام کی تعلیمات کو بھلا دیا ،صرف اپنے حق کو پہچانا اور دوسروں کیساتھ نفرت ، بغض ، حسد کا رویہ اپنا لیا ، طاقت، اثر و رسوخ کو عزت کا نشان سمجھ لیا ، کمزور کو دبا کر کامیابی نہیں ملتی بلکہ حقدار کو اس کا حق پہنچا کرہی انسان کامران ہوتا ہے ۔

social web

columns and articles

columnsarticles.blogspot.com

کینیڈین انقلاب کی آنیاں جانیاں۔تحریر: شفیق ملک

سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا لکھوں اور کہاں سے شروع کروں،بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے یا دل کے ارماں آنسوﺅں میں بہہ گئے،نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم،مگر ٹھریئے خدا کی تلاش کس کو تھی،مقصد کیا یہی تھا یا کچھ اور،عزم کتنا پختہ نظر آتا تھا اور کتنا بودا نکلا،،شروع میں یہ نظام گندہ بدبودار اٹھا کر پرے پھینک دو اور اب مجھے ووٹ دو سپورٹ دو اور اور نوٹ دو ،واہ جی واہ، ایک طرف خواب ،بشارتیں ،تم بہترین لوگ مر گئے تو شہید،تم امت کی زکوٰة ،دوسری طرف قبریں اور کفن حالانکہ شہیدوں کو تو اسی کفن میں دفن کیا جاتا ہے جس میں وہ شہید ہوتے ہیں مگر یہاں،یہ صاحب جب سے پاکستان سے گئے اور کینیڈا پہنچے اس وقت سے لیکر آج تک آپ ان کی تحریریں اور تقریریں اٹھا کر دیکھ لیں تضادات کی بھرمار کا مجموعہ ،یہ مکمل طور پر ایک کنفیوزڈ پرسنلٹی ہیں،صبح کچھ کہتے ہیں شام تک بھول چکے ہوتے ہیں،ایک اوسط ذہن کا بندہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ کنیڈا اور امریکہ اپنی شہریت کسی کو کیوں دیتے ہیں،کینیڈین شہریت اور وہ بھی ایک مولوی ٹائپ بندے کو ممکن ہی نہیں،مگر جب مولوی فضل الرحمن یا طاہر القادری ہو تو پھر کچھ بھی بعید نہیں کچھ بھی ہو سکتا ہے وہ کچھ بھی دے سکتے ہیں اور یہ کچھ بھی لے سکتے ہیں،سو ہر سال ڈیڑھ کے بعد اپنا نام اور عہدہ بدلنے والے مولوی طاہر صاحب نے کینیڈین شہریت چوم کر آنکھوں سے لگائی اور بجائے کینیڈا میں اسلام پھیلانے یا انقلاب لانے کے پاکستان کی جانب عازم سفر ہوئے،یہاں پہنچ کر پہلے ہلاہلالا کرتے اسلام آباد پر چڑھائی کی ،حکمران آصف علی زرداری جیسا شاطر انسان تھا چار چھ دن بٹھا کر کچھ لارے کچھ وعدے اور کچھ دے دلا کر فارغ کر دیا،آصف علی زرداری نے اتنا کچھ ضرور تجوری میں ڈال دیا کہ کم ازکم اپنا باقی ٹائم آرام سے علامہ بلکہ خود ساختہ شیخ الاسلام سے بچ کے گذار لیا،پھر میاں نواز شریف کی حکومت آتے ہی ادھر پرویز مشرف کا ٹرائل میں تیزی آئی تو دوسری طرف ایک دفعہ پھر شیخ الاسلام کی رگ انقلاب پھڑکنے لگی،ابتدا ویسے بھی ہر دفعہ جناب شیخ لاہور سے ہی کرتے ہیں،جناب نے ایک دفعہ پھر فیصلہ کن لڑائی کا اعلان کر دیا کہ اب انقلاب آئے گا یا میں مر جاﺅں گا جو بھی انقلاب کے راستے سے واپس آئے اسے شہید کر دیا جائے لیکن حسب معمول اگلے دن اپنا بیان بدل لیا،اپنے پہلے سفر انقلاب میں آتے ہی اسمبلیاں ختم حکومت ختم وزیراعظم ختم،سپریم کورٹ زندہ باد چیف جسٹس زندہ باد اور جب اسی چیف جسٹس نے کھری کھری سنائیں تو سب مردہ باد ہونا شروع ہو گیا،اسمبلیاں کیا ختم ہونا تھیں جنہیں یزید قرار دیتے رہے پوری قوم نے دیکھا کہ وہ کنٹینر میں ان کو گھٹ گھٹ کے جپھیاں ڈالتے رہے،انہوں نے اپنی جان چھڑا لی،قمر زمان کائرہ کی پریس کانفرنس یاد گاربن گئی مولوی صاحب نے دوبارہ سانحہ ماڈل ٹاو ¾ن کو جواز بنایا،غریب لوگوں کے قتل عام کی ایف آئی آر کا ستیاناس کراد یا،نہ جانے وہ کون سے مشیر تھے اعلیٰ حضرت کے کہ جنھوں نے مشورہ دیا کہ اس ایف آئی میں وزیراعلیٰ سے لیکر وزیرا عظم سمیت ہر حکومتی شخصیت کا نام دے دیا جائے،اس سے اوٹ پٹانگ مشورہ کوئی دے سکتا ہے کسی کو،کسے نہیں پتہ کہ جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے اور ایک سچے واقعے میں جھوٹ کی ملاوٹ اس واقعے کی سچائی پہ سوالیہ نشان لگا دیتی ہے،کیا اتنی عام سی بات بھی نہیں پتہ علامہ صاحب کے پیاروں کو کہ کسی بھی ایف آئی آر کے لیے چشم دید گواہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں،کیا علامہ صاحب کے علاوہ ان کا کوئی ایک بھی مرید اس بات کی قسم دے سکے گا کہ اس واقعے میں میاں نواز شریف ،شہبا شریف،چوہدری نثار،خواجہ سعد رفیق،پرویز رشید اور خواجہ آصف وغیرہ شامل تھے ، کوئی ایک بندہ بھی ایسی انٹ شنٹ گواہی نہیں دے سکتا البتہ علامہ صاحب کی بات نہیں کرتا کہ انہیں الہام ہوتا ہے اور خواب میں بھی روزانہ بشارتیں ملتی ہیں کیوں کہ انہوں نے تو پڑھا بھی چالیس سال عالم رویا میں ہے پتہ نہیں یہ کون سا عالم ہے اور اس کا ٹکٹ کہاں سے ملتا ہے یہ بھی علامہ صاحب کو ہی پتہ ہو گا،اس کے علاوہ چودہ اگست سے لیکر دھرنے کے اختتام تک علامہ صاحب نے بہت کچھ پالیا ہو گا اپنے کینیڈین آقاﺅں سے بھی اور یہاں کے حکمرانوں سے بھی مگر ایک عام پاکستانی اور خاص کر اس کارکن کو جو دو مہینے سے اپنے کام کاج چھوڑ کر اپنے خرچے پر اسلام آباد بیٹھا رہا نام نہاد انقلاب کی امید پر،دھرنے کے اختتام پر لوگوں کی دھاڑیںبے وجہ ہر گز نہ تھیںکہ یہاں ہر دفعہ عوام کے ساتھ ایسا ہی ہاتھ ہوتا ہے ہم نے تو شروع کے دنوں میں ہی لکھ دیا تھا کہ عوامی تحریک کے کارکنوں سے ایک اور ہاتھ ہونے جا رہا ہے کہ جس انقلاب کی نوید علامہ صاحب دے رہے ہیں اس کی آمد اس طرح ممکن ہی نہیں جس طرح جناب چاہتے ہیں،اس کے لیے باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے،یہ ایک ملک ہے منہاج القرآن کا کوئی اسکول نہیں کہ اس میں کسی ایک شخص کی من مرضی کی تبدیلی کر دی جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو،یہاں ایک نظام ہے جس کا اس ملک کا ہر ادارہ پابند ہے،عدلیہ ہے انتظامیہ ہے،فوج ہے ،میڈیا ہے اور سب سے بڑھ کر باشعور سول سوسائٹی ،یہاں یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ایک گروہ یا لیڈر اپنے ساتھ چند ہزار کا جتھا لیکر بیس کروڑ عوام کی منتخب حکومت کو گھر بھیج دے،کیا ایسے انقلاب کا علامہ کینیڈا اپنے وطن کینیڈا میں تصور بھی کر سکتے ہیں انقلاب تو دور کی بات کسی ایک سڑک پر تین دن کا دھرنا ہی دیکر دکھا دیں دن میں تاروں بھرا انقلاب نظر آ جائے گا،یہ اپنے لوگ تھے اپنی حکومت تھی اپنی فوج تھی اور اپنی پولیس تھی کہ جس نے جناب شیخ الاسلام صاحب کی ہر ممکن کوشش کے باوجود لڑائی سے حتیٰ الامکان گریز کیا اور بے چارے شیخ کا لاشوں پہ سیاست کا خواب ادھور ارہ گیا،اس سارے کھیل میں کون جیتا کون ہارا اس کا فیصلہ وقت کرے گا ،ابھی تو قربانی سے پہلے قربانی اور حکومت کا جان ٹھر گیا ہے والوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے حکومت قائم دا ئم ہے اور اب دور دور تک ان کو کوئی ڈر بھی نہیں،اب انہوں نے اس قوم سے گن گن کر بدلے لینے ہیں،لوڈشیڈنگ کی بھرمار اس کا آغاز ہے ،مولانا صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے کے مصداق سوائے اپنا اور قوم کا وقت اور سرمایہ برباد کرنے کے کیا حاصل کیا ،اپنا رہا سہا اعتبار بھی برباد کر ڈالا کہ جب رفتار سے انقلاب انقلاب کرتے آتے ہیں اس سے دگنی رفتار سے واپس بھاگتے ہیں،اب قوم مزید اور ان کی کتنی آنیاں جانیا ںبرداشت کرے، جس دن ریڈ زون سے باہر کھڑے تھے اس دن جو چاہتے منوا لیتے لیکن میں نہ مانوں ہار کہ سجنا دل نہ مانے ہار، ان کے مارچ سے قوم کا فائدہ کیا ہوتا بے حد و حساب نقصان ہو گیا میں چائنہ کے صدر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی بات نہیں کروں گا،میں تو لوڈشیڈنگ ،بے روز گاری اور مہنگائی کی بات کروں گا بلدیاتی انتخابات کی بات کروں گا کہ مولانا ان میں سے ہی کوئی ایک بات منوا لیتے تو قوم کچھ تو ان کی احسان مند رہتی مگر،لیکن اس سارے کھیل میں اور کسی کو کوئی سبق ملا یا نہیں جناب شیخ الکنٹینرکو یہ سبق ضرور مل گیا کہ اصل انقلاب اور اصل تبدیلی کینیڈا اور امریکہ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو نے کی بجائے عوام کی طاقت سے ممکن ہے،اور اس 
کے لیے عوام کے پاس جاناان سے ووٹ لینا ہی واحد راستہ ہے اور یہ نہایت خوش آئند ہے اللہ کرے اب کوئی خواب ان کو اس راہ سے بھی دائیں بائیں نہ کر دے،،،،،،،،،اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو

Thursday 23 October 2014

yahaan Na Wahaan

خلیفہ ہارون رشید نے اپنے ایک نوکر کو بلایا اور اسے تین درہم دے کر کہا کہ جاﺅ ایک درہم "یہاں اور وہاں" دوسرا "یہاں نہ وہاں" تیسرا "یہاں" خرچ کرو۔
نوکر یہ عجیب و غریب حکم سن کر درہم لے کر چلا گیا۔ 
ایک مسجد تعمیر ہورہی تھی، اس نے ایک درہم وہاں دے دیا، آگے گیا تو ایک مداری تماشا دکھا رہا تھا اس نے ایک درہم دے دیا اور ایک درہم کے پھل لے آیا۔ 
واپس آکر اس نے خلیفہ ہارون رشید کو بتایا کہ ایک درہم اس نے مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا جو آپ کو یہاں (دنیا) اور وہاں (آخرت) میں کام آئے گا۔ دوسرا میں نے مداری کو دیا جو آپ کو "یہاں نہ وہاں" کام آئے گا۔ تیسرے درہم کے میں پھل لے آیا جو آپ کو یہاں کام آئیں گے۔ خلیفہ ہارون رشید نوکر کی عقلمندی سے بہت خوش ہوئے اور اسے انعام و اکرام سے نوازا.

sab say baraa Aalam

حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے هیں کے ایک دن قاضی کی عدالت میں کسی علمی مسئلے پر بحث هو رهی تهی. اسی دوران ایک خسته حال درویش داخل هوا اور موزوں مقام پر بیٹھ گیا. حاضرین مجلس اس کی ظاهر حالت سے اسے بالکل معمولی حیثیت کا آدمی خیال کیا اور وهاں سے اٹها کر جوتوں کے قریب بٹها دیا. درویش اس بات سے غم زده هوا لیکن خاموش رها.
بحث کسی بهت هی اهم علمی مسئلے پر هو وهی تهی اور اتفاق ایسا تها کے کوئی بهی اس مسئلے کو مناسب طور پر حل کرنے میں کامیاب نه هو رها تها. وه غصے میں ایک دوسرے کو لاجواب کرنے کی کوشش کر رهے تهے. ان کی گردنوں کی رگیں پهولی هوئی تهی اور کف اژا رهے تهے.
درویش خاموش بیٹها کپھ دیران کا یه دنگل دیکهتا رها. اور پهر بلند آواز میں بولا. حضرات اگر اجازت هو تو اس بارے میں میں کپھ عرض کروں؟
قاضی نے فورا اجازات دے دی اور درویش نے شیریں گفتاری اور استدلال کے ساتھ ایسی آسانی سے وه مشکل مسئله حل کر دیا کے سب حیران ره گئے.
اب حاضریں مجلس کو اندازه هوا کے چیتهڑوں میں لپٹا هوا یه شخص تو بہت بڑا عالم هے, قاضی فورا اپنی جگه سے اٹها اور اپنے سر سے دستار اتار کر اسے پیش کرنے هوئے بولا. افسوس هے کہ پهلے آپ کے علمی مرتبے سے آگاهی حاصل نه هوسکی. حقیقت تو یه هے کے اس دستار کے حقدار آپ زیاده هیں.
درویش نے دستار لینے سے انکار کیا اور یه کہہ کر وهاں سے چلا گیا کہ میں اس غرور کی پوٹلی کو هرگز اپنے سر پر نه رکهوں گا.
یاد رکهو کہ انسان کا رتبه بہتر لباس سے نہيں بہتر علم سے زیاده هوتا هے. کوئی شخص صرف سر بڑا هونے سے عالم نہیں بن جاتا. سب سے بڑا تو پتھر بھی هوتا هے.

Wednesday 15 October 2014

اور پاکستان انقلاب سے بال بال بچ گیا!

شفیق ملک
فرشتہ اجل کی اک پھونک کی محتاج سانسوں کی ڈور،زندگی،کاسہ حیات،زیست مختصر،تار نفس کے انداز نرالے ہیں،اس صداقت سے انکار کیسے ممکن ہے کہ انسان فطرت کے بہت سے گہرے رازوں تک رسائی پا چکا ہے اور دن رات اسی جستجو میں ہے،وہ اپنی کوشش اور لگن میں ایک طرف آسمان کو چھوتی چوٹیوں کو اپنے پاؤں تل روند چکا تو دوسری طرف زمین کے اندر پاتال تک جا کر جی ہاں پینتیس ہزار سے لیکر پچھتر ہزار میٹر تک کھدائی کر کے تیل نکال رہا ہے ،ایک طرف چاند سے گزر کر مریخ پر جا پہنچا تو دوسری طر ف مصنوعی بارش اور سمندروں کے سمندر کنگھال رہاہے لیکن یہ سب کچھ ایک منظم اور مربوط قوت اور ہمت کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے،جوں جوں وقت تبدیل ہوتا گیا انسانی معیارات اور میزان بھی تبدیل ہوتے گئے،آج کسی کوبے وقوف بنانا مشکل بلکہ تقریباناممکن،کبھی لفظوں کے جادو گر انسانوں کو ہپناٹائز کر لیتے تھے ،لوگ اپنی مرضی کامنجن تیار کر کے مرضی کے دام وصول کر لیتے تھے، وہ دور چلا گیا مگر اپنی باقیات چھوڑ گیا جو آج بھی سمجھتے ہیں کہ اپنی پسند کا سودا تیار کر کے من مانے ریٹس ہر فروخت کر لیں گے،بے خبروں کو پتہ ہی نہیں کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور وہ ابھی تک کچھوے کی رفتا ر چھوڑنے کو تیار نہیں،آج کوئی بات چھپانا یا دبانا ممکن ہی نہیں رہا،اول تو خود ہی بولتے بولتے پھسل جاتے ہیں نہ بھی بولیں تو الیکٹرونک میڈیا (پرویز مشرف کا واحد قابل تعریف کام) ،ڈویژن اور ضلعوں کے علاوہ تحصیل سطح تک جڑیں رکھتے نیوز نیٹ ورک،انتہائی نا معقول معاوضوں پہ دیمک کی طرح ہر کھڑکی اور روزن تک رسائی رکھتے رپورٹرز اور کیمروں کے ہوتے اب کچھ چھپانا ممکن ہی نہیں رہا اور اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو لازم ہے کہ اپنے دماغ کا طبی معائنہ کرائے،انقلاب اور آزادی کی رتھوں پہ سوار وں نے سوچا ہم سب کچھ کر گزریں گے کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو گی،تیرہ مارچ سے ایک ایک دن اور ایک ایک حرکت کا موازنہ کریں تو پانچویں جماعت کے بچے کو بھی سمجھ آجائے کہ ان دھرنوں کی آڑ میں اصل مقاصد کیا تھے ، قوم نے اب ان کے عزائم اچھی طرح بھانپ لیے ہیں کہ یہ کیا چاہتے ہیں اور ان کی ڈوری کس کے ہاتھ میں ہے،دونوں نے بیک وقت ایک ہی قسم کا اعلان کیا اور کہا گیا یہ محض اتفاق ہے اب اتفاقات دیکھئے ایک لندن میں پہنچا دوسرا بھی اتفاقاً وہاں آ نکلا ،دونوں کی غیر ملکیوں کی موجودگی میں ہوٹل میں اتفاقاً ملاقات ہو گئی،ایک نے لاہور سے اپنی جدوجہد شروع کرنیکا اعلان کیا تو اتفاقاًدوسرے نے بھی لاہور سے ہی اعلان کر دیا،اتفاق سے ایک صاحب نے جشن آزادی کے دن کا انتخاب کیا تو دوسرے صاحب نے بھی 14اگست لاہور میں منانے کا اعلان کر دیا،ایک صاحب نے شام کو اسلام آباد کیلئے رخت سفر باندھا اتفاقاً اسی وقت دوسرے صاحب نے بھی روانگی کا حکم دے دیا،اب آگے عجیب اتفاق ہوا مولانا کینیڈا آگے تھے جبکہ آزادی خان پیچھے مگر مندرہ کے قریب عجیب اتفاق ہوا کہ خان صاحب رانگ سائیڈ سے آگے نکل گئے نہ صرف خود بلکہ پورا لشکر اور اتفاق دیکھئے کہ نہ کوئی سڑک بلاک ہوئی نہ رستہ بند ہوا،اتفاقاً دونوں جلوس ایک ہی وقت میں اسلام آباد پہنچے،ایک ہی طرح کی دو کھلی سڑکوں پر قبضہ کیا،اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر اور حمایت کے لیے بے جا اور بے تکے نعرے لگائے،اتفاقاً دونوں طرف سے اعلان ہوئے کہ پولیس کو گلی مار و مگر فوج زندہ باد ،خود فوج حیران پریشان ہو گئی کہ اس بے تکی مداحیت پہ میں روؤں یا ہنسوں کروں میں کیا کروں والی کیفیت بن گئی،دونوں نے قوم کو چوبیس گھنٹے کبھی چھتس گھنٹے اور کبھی دو دن کے بعد خوشخبریا ں ملنے کی آس امیدیں دلائیں،ایمپائرکی انگلیوں کے اٹھنے کے مژدے سنائے دوسری طرف ملکی تاریخ میں پہلی بار تمام جمہوری قوتیں،سول سوسائٹی،وکلا،عدلیہ ،فوج اور میڈیا اپنی جگہ ڈٹ گئے کہ کوئی بھی غیر جمہوری اور غیر آئینی راستہ نہ اختیار کیا جائے گا نہ برداشت کیا جائے گا،جس سے ان کے غیر ملکی سرپرستوں کو شدید ترین دھچکا لگا،پھر دونوں کو ایک اتفاق نے بیک وقت ریڈ زو ن داخلے پر مجبور کر دیا،پھر اگلا اتفاق وزیراعظم ہاؤس کے اندر گھسانا چاہتا تھا کہ حکومت کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور ڈنڈے اٹھائے وزیر اعظم ہاؤس فتح کرنے والا لشکر پورس کے ہاتھیوں کی طرح واپس لشکر کی طرف پلٹ پڑا ،دونوں کنٹینرز بردار کنٹینروں میں دبک گئے اور پھر اتفاقاًدونوں کنٹینروں کے ساؤنڈ سسٹم سے اعلانات ہوئے کہ ہمارا ارادہ وزیر اعظم ہاؤس کی طرف جانے کا ہر گز نہیں تھا،پھر اتفاقاً دونوں اپنی اپنی جگہ پہ واپس آگئے اور تاحال اتفاق ان کو یہاں سے واپس جانے کی اجازت نہیں دے رہا،نہ کوئی ایجنڈا نہ ڈھنگ کا مطالبہ فقط :نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے:مگر بہت کچھ عیاں ہو چکا ان کے چالیسویں تک قوم سب کچھ سمجھ چکی کون کیا ہے اور کیا ارادہ رکھتا ہے سب کچھ سامنے آچکا،لندن پلان چند جاتے ہوئے زور آوروں اور کینیڈین و امریکی ڈالروں کے عوض اس قوم کو ذلت کی پاتال میں گرانے کی مذموم سازش بے نقاب ہو چکی،تمام تفصیل کا ایک ایک لفظانتہائی معتبر اخبار نویس سلیم صافی اپنی تحریر میں واضح کر چکے ،جن پہ چاروں طرف سے اہلیان انقلاب اور پاسداران آزادی نے تبروں کی یلغار کر رکھی ہے،مگر سورج پہ نہ کوڑا پھینکا جا سکتا ھے نہ تھوکنا ممکن ہے کہ دونوں صورتوں میں گند اپنے چہرے پہ گرتا ہے،قدرت نے پاکستان اور پاکستانی عوام پہ اپنا فضل و کرم جاری رکھا پہلے بارش اور اب عید آگئی ،لکی عمرانی سرکس اور کنیڈین شو تمام ہونے کو ہے ،جو انقلاب یہ لیکر آنا چاہتے تھے یا جس قسم کی تبدیلی چاہتے تھے اگر آجاتی تو اس میں پاکستان تبدیل تو کیا ہوتا دہائیوں پیچھے چلا جاتا ،اور مصیبت و افلاس میں گھری قوم مزیدغم واندوھ میں گھر جاتی، ان دونوں حضرات کامطلوبہ انقلاب اور تبدیلی جب آرمی چیف سے ملاقات کو روانہ ہوئے دھرنے کے عین درمیان میں تو ان کی باڈی لینگوئج سمجھا رہی تھی کہ یہ کیا چاہتے ہیں ،اللہ نے اس قوم پہ رحم کیا،پارلیمنٹ نے یکجان ہو کر سپریم ادارہ ہونا ثابت کیاتو قوم نے ایک لاکھ موٹر سائیکل والی درفطنی پہ کا ن نہ دھر کے باشعور ہونے کا واضح ثبوت پیش کر دیا،وزیر اعظم کو ئی بھی ہو اور حکومت کسی کی بھی کیوں نہ ہو آنے جانے اور ہٹنے ہٹانے کا ایک آئینی طریقہ موجود ہے،سرپرستوں نے سرمائے یعنی ڈالروں سے بھرپور سرپرستی کی مگر اندر جنھوں نے تبدیلی لانی تھی ان کے سربراہ نے گھاس نہ ڈالی یوں نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والی پوزیشن بن گئی،اب اوئے اوئے کرتے پوزیشن یہ بن گئی کہ اوئے کوئی تو آؤ ہمیں منانے مگر،جنھوں نے منانا تھا وہ امریکہ میں ہیں اور قوم دوہری خوشی کی تیاریوں میں مصروف ہے،ایک خوشی یہ کہ عید قربان کی آمد آمد اور دوسری؟؟؟؟؟جی ہاں دوسری یہ کہ پاکستان ان کے انقلاب سے بال بال بچ گیا،،،،،،،،

طاہر القادری کا چیک ڈرامہ بھی فلاپ ہو گا۔ پرویز رشید‎

اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا کہ حکومت نے سیلاب متاثرین کی تفریق مدد کی ہے۔ طاہر القادری کا چیک ڈرامہ بھی فلاپ ثابت ہو گا۔ عوام ان کے نعروں سے بیزار ہو چکے ہیں۔ پرویز رشید کا کہنا ہے کہ حج کے روز ہماری قربانی کی باتیں ہو رہی تھیں۔ لیکن حجاج کرام نے کوئی تکلیف نہ ہونے کے باعث ہمارے لیے دل سے دعائیں کیں۔


غلام رسول اور عمران خان۔تحریر:شفیق ملکغلام رسول اور عمران خان۔تحریر:شفیق ملک

غلام رسول اور عمران خان۔تحریر:شفیق ملک

کسی مدرسے میںایک طالب علم جس کے دوست کا نام غلام رسول تھااسے اس کا استاد جو بھی مضمون لکھنے کو دیتا وہ انٹرویعنی مضمون کا آغاز غلام رسول کے نام سے کرتا،ایک دفعہ اسے اس کے ٹیچر نے کہا کہ میرا بہترین دوست پہ مضمون لکھو،اس نے مضمون کا آغاز کیا کہ میر ا سب سے بہترین دوست غلام رسول ہے وہ میرا ہم عمر ہے ہم اکٹھے کھیلتے ہیں،اکٹھے پڑھتے ہیں اکٹھے سکول جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ،دوسری دفعہ اسے میرا بہترین استاد پہ مضمون لکھنے کو کہا گیا اس نے لکھا امجد صاحب میرے بہترین استاد ہیں وہ مجھے بہت اچھا پڑھاتے ہیں وہ میرے دوست غلام رسول کے والد ہیں غلام رسول میر ابہترین دوست ہے ہم اکٹھے پڑھتے ہیں اکٹھے اسکو ل جا تے ہیں ،پھر اسے علامہ اقبال پہ مضمون لکھنے کو دیا گیا اس نے لکھا علامہ سر محمد اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے وہ ہمارے قومی شاعر ہیں ان کی ایک بڑی مشہور کتاب بانگ درا ہے جو غلام رسول نے مجھے دی تھی غلام رسول میرا بہترین دوست ہے ہم اکٹھے پڑھتے ہیں اکٹھے اسکول جاتے ہیں استاد نے تنگ آ کے اسے قائداعظم پہ مضمون لکھنے کو دے دیا اس نے لکھا کہ قائد اعظم نے پاکستان بنایا وہ قوم کے روحانی باپ ہیں،انہوں نے ہمیں دنیا کا خوبصورت ترین خطہ پاکستان لیکر دیا پاکستان میں بے شمار خوبصورت مقامات ہیں جن میں سے کئی ایک میں نے غلام رسول کے ساتھ ملکر دیکھے ہوئے ہیں کیوں کہ غلام رسول میرا بہترین دوست ہے ہم اکٹھے پڑھتے ہیں اکٹھے اسکول جاتے ہیں اکٹھے کھیلتے ہیں,ٹیچر نے ہر حربہ آزما لیا کہ کسی طرح یہ غلام رسول کا :کھاڑا:چھوڑ دے مگر بات نہ بنی ،ٹیچر نے اپنے سنیئردوست سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے دوست نے کہا لڑکا مجھ سے ملواﺅ اورجب ملویا گیا تو انہوں نے اسے جہاز پہ مضمون لکھنے کو دیا اور ساتھ میں تنبیہ بھی کر دی کہ اس میں غلام رسول نہ ہی ہو تو بہتر ہے،طالب علم نے مضمون لکھا کہ جہاز انسانیت کی ایک بڑی اور شاندار ایجاد ہے ،اسے رائٹ برادران نے ایجاد کیا اس نے مھینوں اور سالوں کے فاصلوں کو دنوں بلکہ گھنٹوں تک محدود کر دیا ہے ،جہا ز سفر کا نہایت ہی بہترین تیز اور آرام دہ ذریعہ ہے مجھے ایک دفعہ دبئی جانا پڑا،میں نے پاسپورٹ پہ ویزا لگوایا جہاز کی ٹکٹ لی اور مقررہ دن جہاز میں سوار ہو گیا،جہاز میں نہایت ہی خوش اخلاق عملے سے مجھے واسطہ پڑا ،خوبصورت عورتوں نے مجھے کھانا پیش کیا،راستے میں مجھے کسی بھی قسم کی تکلیف نہ ہوئی مجھے جو بھی چیز ضرورت تھی فراہم کی گئی،ایک ہفتہ دبئی رہنے کے بعد میں اپنے وطن کے لیے روانہ ہوا دوبارہ شاندار سفر کے بعد میں اپنے ملک میں واپس پہنچا ائر پورٹ پر مجھے لینے غلام رسول پہنچا ہوا تھا کیوں کہ غلام رسول میرا بہترین دوست ہے،ہم اکٹھے کیلتے ہیں اکھٹے پڑھتے ہیں ،ہم دونوں ہم عمر ہیں غلام رسول میرا بہترین دوست ہے، استاد بے چارہ سر پکڑ کے بیٹھ گیا اور کچھ ایسا ہی حال آجکل اپنے خان صاحب کا بھی ہے یہ صاحب جن کے کہنے پہ بھی لاہور سے چلے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ تاریخ کا دھارا بڑا بے رحم ہوتا ہے اور کچھ ہی وقت کے بعد سب کچھ عیاں کر دیتا ہے یہ بعد میں پتہ چلے گا اور سب کچھ پتہ چلے گا کہ کون کس کی ایما پہ کیا کرتا رہا فی الحال دھرنا فیم انقلاب اور آزادی مارچ کی بات کرتے ہیں،کہ ان کے مطالبات کیا ہیں کتنے جائز اور کس حد تک نا قابل قبول ہیں،علامہ کینیڈا کی تو بات ہی چھوڑیں کیوں کہ وہ اس سسٹم کے ہی باغی ہیں بلکہ ہر اس سسٹم کے جس میں انہیں حصہ نہ ملے، ووٹ لوگ دیتے نہیں ان کو اور ویسے اقتدار ملنے کی کوئی آس اب ہے نہیںاس لیے وہ سارے نظام کو کوڑے کے ڈرم میں پھینکنا چاہتے ہیں کہ کیا فائدہ اس نظام کا جو ان کی شیخ الاسلامی سے راہنمائی لینے کے لیے ایک انچ بھی تیا ر نہیں،ہم بات کرتے ہیں اپنے خان صاحب کی کہ جن کو اس قوم کی ایک بڑی تعداد نے بے پناہ ووٹ دیکر ان اسمبلی میں بھیجا،مسیحا سمجھ کے ایک صوبے کی عنان ان کے حوالے کی اور بجائے اس کے کہ جناب کچھ کر کے دکھاتے نجانے کس کے :آکھے: لگ کے اڑتی مرغابی کے پیچھے لگ کے بغل میں دبی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے،چلیں اگر آپ دھرنا دھرنا کرتے اسلام آباد آ ہی پہنچے تو تھوڑی سیاست بھی سیکھ ہی لیتے اپنے اتالیق شیخ رشید سے،سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا یہ ٹائمنگ کا کھیل ہے اس میں بہترین وقت میں بہترین فیصلہ کرنے والے ہی آگے بڑھتے ہیں،آپ نے جس طرح کا پریشر ڈیولپ کر لیا تھا آپ کی ہر بات مان لی جاتی سوائے غلام رسول معاف کیجیے گا وزیر اعظم کے استعفے کے،جب ساری پارلیمنٹ یک جان ہو گئی ملک کی سول سوسائٹی آپ اور آپ کے سر پرستوں یعنی لندن امریکہ اور کینیڈا کے ارادے بھانپ گئی، میڈیا،وکلابرادری اور عدلیہ پارلیمنٹ کی حفاظت کے لیے آہنی دیوار بن گئی تو آپ کو فوراً سمجھ آ جانی چاہیے تھی کہ اب اپنے مطالبات سے غلام رسول کو نکال دینا چاہیے اور واپسی کی باعزت راہ نکالنی چاہیے،آپ چاہتے تو ان کو لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی ڈیڈ لائن دے کر عوامی حمایت کی ایک بڑی لہر اپنے ساتھ شامل کر لیتے،آپ چاہتے تو پورے ملک میں نظام تعلیم یکساں کر وا سکتے تھے،آپ چاہتے تو بلدیاتی الیکشن کی تاریخ لیکر پاکستان کی نسلوں پر احسان کر سکتے تھے،آپ چاہتے تو پورے ملک سے ریڈ زون اڑا کر وی آئی پی کلچر کی دھجیاں بکھیردیتے ،مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پستے عوام کے لیے کوئی برا پیکج لے لیتے،سیلاب متاءثرین کو فقط سعد رفیقوں او ر احسن اقبالوں پہ چھوڑنے کی بجائے کو ئی ڈھنگ کا پاکستانی ڈیزاسٹر منیجمنٹ کا انچارج بنا کے سارا ریلیف کا نظام اس کے حوالے کرتے تا کہ اس قوم کے لمبے بوٹ پہنے پانی میں کھڑے کیمروں کی طرف چور آنکھوں سے دیکھتے جوکروں سے نجات ملتی مگر آپ کی ہر تان اوے نواز شریف اور جب تک وزیراعظم استعفےٰ نہیں دیں گے نہیں بلکہ نہیں دے گا میں یہاں سے نہیں جاﺅں گا،آپ چاہتے تو سارا انتخابی نظام الیکٹرانک سسٹم سے منسلک کر وا لیتے جیسے چاہتے انتخابی اصلاحات کروا لتے مگر جو آپ کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ آپ کا تمام جو ش و خروش خالی خولی انڈونچر بازی سے زیادہ کچھ نہیں زیادہ دور اور لمبی بات کی بجائے صرف نیٹو سپلائی کی بات کرتا ہوں یقینناً آپ کو یاد ہو گا جب جناب نے خیبر پختونخواہ سے سپلائی کی بندش کا اعلان کر دیا اور نونہلان انقلاب پشاور موٹروے ٹول پلازے پر پٹھان ڈرائیورو ں سے :کاغذات: چیک کرتے رہے،اب وہی سپلائی ہے اور وہی خیبر پختونخواہ حکومت مگر،،،اور ادھر حالات یہ ہیں کہ ایک طرف مذاکرات جاری ہیں دوسری طرف میں نہیں جاﺅں گا جب تک وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دے گا میں نہیں جاﺅں گا،اصل میں قصور سارا خان صاحب کا بھی نہیں دو چار سیاستدان جن کو اس ملک کا بچہ بچہ جانتا پہچانتا ہے اور دو تین کالم نگار جن میں ایک صاحب کا تعلق اپنے شہر سے بھی ہے جو اکثر چند ہزار لوگوں کے جمگٹھے کو فی الفور انقلاب اور تبدیلی کا نام دے دیتے ہیں عمران خان کو اس دلدل میں دھکیلنے کے ذمہ دار ہیں،عمران خان سنجیدہ طرز سیاست اپنائیں آئین اور قانون کا راستہ اختیا ر کریں اور جتنا موقع ملا اسے غنیمت جانیں ،خدا کے لیے اب ملک مزید عزیز ہم وطنوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ،اس ملک اور قوم پر رحم کریں اور اپنے جائز مطالبات تسلیم کروائیں مذاکراتی ٹیم کو اپنا کام کرے دیں اورفوج جس صفائی ستھرائی میں لگی ہے اسے یکسوئی سے اپنا کام کرنے دیں کہ وہی اس قوم کے اصلی محسن ہیں وہ جس جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں اس میں اگر کامیاب ہو گئے اور انشاءاللہ ضرور ہوں گے تو یہی اصلی انقلاب ہو گا جب ملک میں امن اور سکون ہوگا لوگ گھروں بازاروں اور مسجدوں میں محفوظ ہوں گے آپ خود بھی ریسٹ کریں اور غلام رسول کو بھی تھوڑا آرم کرنے دیں،،،اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو،،،،،

Maa ki Muhabbat

ماں کی محبت اور طاقت پر ایک خوبصورت حکایت
سمندرکِنارےایک درخت تھا جس پہ چڑیا کا گھونسلا تھا ایک دن تیز ہوا چلی تو چڑیا کا بچہ سمندر میں گرگیا چڑیا بچے کو نکالنے لگی تو اُسکے اپنے پر گیلے ہوگئے اور وہ لڑکھڑا گئی....
اُس نے سمندر سے کہا اپنی لہر سے میرا بچہ باہر پھنک دے مگر سمندر نہ مانا تو چڑیابولی دیکھ میں تیرا سارا پانی پی جاوُں گی تجھے ریگستان بنا دونگی... سمندراپنے غرور میں گرجا کہ اے چڑیا میں چاہوں تو ساری دنیا کو غرق کردوں تو تو میرا کیا بگاڑ سکتی ہے؟
چڑیا نے اتنا سُنا تو بولی چل پھرخشک ہونے کو تیار ہوجا اسی کےساتھ اُس نےایک گھونٹ بھرا اُوراڑ کےدرخت پہ بیٹھی پھرآئی گھونٹ بھراپھردرخت پہ بیٹھی یہی عمل اُس نے7-8 بار دُھرایا تو سمندر گھبرا کے بولا: پاگل ہوگئی ہےکیا کیوں مجھےختم کرنےلگی ہے ؟ مگرچڑیااپنی دھن میں یہ عمل دُھراتی رہی ابھی صرف 22-25 بارہی ہوا کہ سمندرنےایک زور کی لہرماری اورچڑیا کے بچے کو باہر پھینک دیا ...
درخت جو کافی دیر سے یہ سب دیکھ رہا تھا سمندرسےبولا اے طاقت کےبادشاہ تو جو ساری دُنیا کو پل بھر میں غرق کر سکتا ہےاس کمزور سی چڑیا سےڈرگیا یہ سمجھ نہیں آئی ؟
سمندربولا تو کیا سجھا میں جو تجھےایک پل میں اُکھاڑ سکتاہوں اک پل میں دُنیا تباہ کرسکتا ہوں اس چڑیاسے ڈرونگا؟
نہیں میں تواس ایک ماں سےڈرا ہوں ماں کےجذبے سے ڈرا ہوں اک ماں کے سامنے توعرش ہل جاتا ہے تو میری کیا مجال.. جس طرح وہ مجھےپی رہی تھی مجھےلگا کہ وہ مجھےریگستان بنا ہی دےگی....
ماں " اللہ پاک " کی سب سے عظیم
نعمت ہے .. اس کی قدر کریں ..
اللہ پاک سے دعاء ہے کہ وہ ھمیں
اپنے والدین کی خدمت کی توفیق
عطاء فرمائے .. آمین

About me

 نام  نبیلہ  شمیم 
گریجویٹس  : اف  جی  ڈگری  کالج عابد مجید  روڈ 
ماسٹر : فاطمہ  جننہ وومن یونیورسٹی راولپنڈی 
MPHIL: کامسٹ 
رہاھش : راولپنڈی

ذرا ک نظر ادھر بھی:تحریر، نبیلہ شمیم

ذرا ک نظر ادھر بھی:تحریر، نبیلہ شمیم

dhulli
تلہ گنگ تحصیل جسے شہیدوں اور غازیوں کی واحد تحصیل ہونےکا رتبہ اور مرتبہ حاصل ہے،یہ تحصیل 84 اور ایک اور محتاط اندازے کے مطابق چھیاسی گاﺅں دیہاتوں پر مشتمل ہے،اس علاقے کے گاﺅں کو عموماً گراں کہا جاتا ہے،اس تحصیل کا کوئی قصبہ یا گراں ایسا نہیں جہاں کسی نہ کسی شہید کی قبر نہ ہو،اس تحصیل کے مشرقی سمت دیہاتوں کا ایک بہت بڑا اور وسیع سلسلہ ہے یہاں پہ صوبائی اسمبلی کے دوجبکہ ایک قومی اسمبلی کا حلقہ ہے،ان دیہاتوں میں ایک گاﺅں یا گراں ڈھلی بھی ہے ،جو ڈھلی بھگٹال کے نام سے مشہور ہے جبکہ حقیقت میں ڈھلی اور بھگٹال دو الگ الگ گاﺅں ہیں مگر انتہائی قریب قریب واقع ہونے کی وجہ سے ان دونوں کو ہی ڈھلی بھگٹال کے نام سے جانا مانا جاتا ہے ،ڈھلی گاﺅں کی آبادی لگ بھگ چھ ہزار کے قریب ہے،فضا میں ہلکی خنکی لیے صبح کی پرنور روشنی جیسے ہی اپنے وجود سے نکل کر زندگی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے مرغوںکی آوازسارے گاﺅں میں گونج اٹھتی ہے اور کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صبح کا اجالا بار بار کہہ رہا ہو کہ اے اجلے لوگو اٹھو کہ منزل بہت ہی قریب ہے،اب مزید سوکے اپنا قیمتی وقت ضائع مت کر و اٹھو اور خدا کے بخشے ایک نئے دن کو اچھے اور مفید کاموں میں استعمال کرو،موذن اذان کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ اس نیند سے بیدار ہو جانا تمھارے حق میں بہتر ہے،اٹھو اور آجاﺅ دائمی فلاح اور کامیابی کی طرف،اذان کی آواز کان میں پڑتے ہی بزرگ مرد خود اٹھ کے شفقت،علی،تنویر ،عثمان اٹھ جاﺅ شاباش نماز کا وقت ہو گیا ہے کی آواز لگاتے ہیں ،بچے آنکھیں ملتے اٹھ کے بزرگوں کے پیچھے مسجد کی جانب رواں دواں نظر آتے ہیں ،مرد مسجد جاتے ہیں تو خواتین گھر میں نماز تلاوت اور تسبیح سے فارغ ہو کہ اپنی پکی اینٹوں سے بنے کچے چولہے پر چائے کی دیگچی چڑھا دیتی ہیں،چولہے سے اٹھتا دھواں لمبی قطار میں یوں بلند ہورہا ہوتا ہے جیسے پورے گھر کے گذرے کل کے غم دکھ اور تکالیف اپنے اندر سموئے ہمیشہ کے لیے دورروانہ ہو رہا ہے آہستہ آہستہ سورج کی شعاعیں اپنے اندر امید کی ایک نئی کرن لئے پورے گاﺅں میں اجالا کر دیتی ہیں،پرندے سویرے سویرے چہچہاتے اور اپنے مخصوص انداز میں اٹھکیلیاں کرتے کھیتوں کی طرف اس مزدور کی طرح رخ کر لیتے ہیں ،جس سے اس کا رزق وابستہ ہوتا ہے،خواتین بچوں کو ناشتہ دے کر ان کو سکول کے لیے روانہ کرتی ہیں،مرد اپنے مال مویشی کو اپنے آگے لگائے کھیتوں کی طرف چل پڑتے ہیں،جہاں لہلہاتے فصل ہوا سے سرگوشی کرتے ذکر الٰہی میں مشغول ہوتے ہیںاس گاﺅں میں پانچ اسکول ہیں جن میں سے دو گورنمنٹ ،دو پرائیویٹ اور ایک مکتب یعنی مدرسہ ہے جہاں غریب بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے،اس گاﺅں میں بھی برادری اور ذات پات کا سسٹم موجود ہے،یہاں ہر برادری اور ذات کے لوگ موجود ہیں،گاﺅں کی اپنی مخصوص پنجابی ثقافت ہے اور یہ لوگ اپنی اس ثقافت کے بارے میں انتہائی حساس ہیں،یہ پنجابی زبان کا استعمال کرتے ہیں،خوراک میں دیسی روٹی ،سبزی دال چاول ،گھی مکھن،لسی دودھ،چائے اور حلوے کا عام استعمال ہے،گرمیوں میں تندور کی گرم روٹی کو مکھن یا گھی سے چپڑ کر لسی کے ساتھ کھانے کا اپنا ایک الگ ہی مزا ہے جس کی لذت کا اندازہ کھائے بغیر ممکن ہی نہیں،اس کے علاوہ دیسی مرغیوں کے انڈے اور ان کا گوشت بھی عام استعمال کیا جاتا ہے،قربانی بھی یہ لوگ قربانی کی اصل روح کے مطابق کرتے ہیں یعنی گھر میں رکھا اور نازوں سے پال پوس کے جوان کیے گئے دنبے بکرے اور بیل کو ذبح کیا جاتا ہے،اس علاقے میں کسی بھی قسم کی انڈسٹری نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا واحد ذریعہ آمدن زراعت ہے،جسے اب آہستہ آہستہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیاجارہا ہے ،یہاں لوگ گندم ،مکئی ،باجرا جو ،چنے اور مونگ پھلی کاشت کرتے ہیں،شادی بیاہ میں برادری سسٹم،وٹہ سٹہ اس کے علاوہ ولیجوازم(ایک گاﺅں سے دوسرے گاﺅں) میں شادی کرنے کا رواج عام ہے اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی شادی میں گاﺅں کے تمام افراد کو مدعو کیا جاتا ہے،خواتین اپنے مخصوص انداز میں پنجابی گانے گاتی ہیں جو اصل میں ایک دعا یا نیک خواہشات کا اظہار ہوتا ہے،نکاح عموماً صبح کے وقت کیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے باقی کام کاج بھی مکمل کر سکیں،اس ثقافت میں جہیز کی لعنت اور اس کی نمائش کے جراثیم ابھی تک بدرجہ اتم موجود ہیں جن کا تعلیم کی ترقی کے بغیر خاتمہ تقریباً نا ممکن ہے،غریب والدین نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹی کا جہیز مکمل کرتے ہیں اور اس کے لیے نسلیں تک گروی رکھ دیتے ہیں صرف اس لیے کہ ان کی بیٹی کی آنیوالی زندگی پرسکون گذرے،دوسری شادی اور طلاق نہ ہونے کے برابر ہیں،گاﺅں کے نوجوانوں کا پسندیدہ کھیل کرکٹ ہے تاہم ہاکی یا فٹ بال کے ورلڈ کپ کے دوران یہ دونوں کھیل بھی نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کر لیتے ہیں مگر صرف وقتی طور پر،اس گاﺅں بلکہ علاقے میں خواتین ابھی تک مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں کھلیانوں میں کام کرتی ہیں اس کے علاوہ خواتین کی اکثریت ابھی تک پیروں فقیروں اور تعویذ گنڈوں پر یقین رکھتی ہے اور کئی دفعہ ان جعلی پیروں اور فقیروں سے اپنی عزت تک گنوا بیٹھتی ہیں اور پھر مدتوں ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہتی ہیں،یہ اپنے گھریلومسائل سلجھانے کے لیے بابوں اور ملنگو ں کے پاس جاتی ہیں اور نتیجے میں پچھلے مسائل حل کیا ہوں نئے مسائل میں پھنس جاتی ہیں تاہم اب نوجوان نسل جو تعلیم اور شعور کا سفر تیزی سے طے کر رہی ہے کافی حد تک اس پیر پرستی سے بیزار نظر آتی ہے،اب بچے بچیاں دونوں آہستہ آہستہ تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں ،اگرچہ وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ گاﺅں کی ثقافت میں بھی تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے،لیکن تاہم اس بڑے گاﺅں میں علاج معالجے کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے،لوگوں کو بیماری کی صورت میں تلہ گنگ اور چکوال جانا پڑتا ہے،اور مرض کی نوعیت اگر شدید ہو تو اسے راولپنڈی لے جانا پڑتا ہے،اکثر غریب اور نادار لوگ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے مکمل علاج نہیں کرواسکتے،میری اس علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے سے گذارش ہے کہ ان لوگوں نے آپ کو اپنا نمائندہ منتخب کیا آپ کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجا کہ آپ ان کے مسائل حل کریں گے تو خدارا ان کی امیدوں پر پانی مت پھیریں اور ان کی بہتری اور فلاح کے لیے ہر مکن اقدامات کریں،
آخر میں ایک نظم کے چند اشعار
وہ جن درختوں کی چھاﺅں سے
مسافروں کو اٹھا دیا تھا
اگلے برس ان درختوں سے پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
گذرے تھے ہم پہ رنج سارے زمانے کے
جو خود پہ گذرے تو لوگ سمجھے
وہ گاﺅں کا ایک ضعیف دہکاں،سڑک کے بننے پہ
کیوں بلاوجہ خفا تھا،
جو اس کے بچے شہر جا کے کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
اور جب اس کے کمرے سے اس کا بے حس بدن نکلا
تو کوئی نہ سمجھ سکا یہ فلسفہ کہ کیوں مر گئی یہ اس عمر میں
جب خود محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے

http://voiceoftalagang.com/

http://voiceoftalagang.com/

Talagang Time


Font size: Decrease font Enlarge font
حج اکبر کی سعادت
وطن پاکستان کی سلامتی ۔سیاسی استحکاماور تعمیر و ترقی کے لئے عازمین کی خصوصی دعا ئیں
قارئین محترم!بسلسلہ حج 31اگست2014سے شبیر ٹورز کے قافلہ کے ہمراہ حجاز مقدس میں ہوں ۔ الحمد اﷲ حج کا نواں سفر مبارک ہے ۔اور شبیر ٹورز چونکہ مجموعہ \"گلفراز\"کیساتھ ملکر حج آپریشن گذشتہ سال سے کر رہا ہے اور الحمد اﷲ چند سالوں سے ضیوف الرحمن یعنی اﷲ تعالی کے مہمانوں کی خدمات اور بہتر سروسز فراہم کر نے پر سعودیہ عریبیہ سے حسن کارکردگی ایوارڈز بھی حاصل کر چکا ہے ۔ اور یہ ایوارڈ چیرمین حرمین شریفین امام کعبہ شیخ عبد الرحمن السدیس کے دست مبارک سے راقم اور مجمو عہ گلفراز کے امیر حاجی گل فراز خان ، محمد اسماعیل قریشی ، چودھری آصف حسین ، غلام مصطفے اور دیگر ساتھیوں نے حاصل کیا ہے ۔ 
الحمد اﷲحج کے مقدس اعلی و ارفع اور بابرکت سفر کا آغاز 2006سے ہوا اور اس سال 9ذوالحج جمعہ کے دن ہو نے کی وجہ سے حج اکبر ہوا ۔ او ر اس دفعہ بھی 9ذوالحج جمعہ کو ہونے کیوجہ سے 8سال بعد یعنی نویں سال بتاریخ 3اکتوبر2014بروز جمعہ کو حج اکبر ہو رہا ہے ۔ بلاشبہ یہ اﷲ تعالی کا خصوصی فضل و کر م ہے ۔ بخشش اور معافی کے بہانے ہیں ۔ اگر اپنی زندگی کی طرف اور اعمال کی جانب دیکھوں تو سوائے شرمندگی کے دامن میں کچھ بھی نہیں ۔ 
میرا جیون تو گناہوں کے سوا کچھ بھی نہیں 
میں تو حیران ہوں مجھ کو پھر کیسے بلا یا
الحمد اﷲ امسال شبیر ٹورز /مجموعہ گلفراز کے حجاج کرام کو حرم پاک مکہ مکرمہ باب العزیز کے سامنے صٖفا ٹاور ہوٹل دارلغفران میں رہائش فراہم کی گئی جبکہ مدینہ منورہ میں داراندلس ہوٹل دیا گیا ۔بوفے ناشتہ، لنچ اور ڈنر کی سہولت مکہ ، مدینہ اور منی میں بھی فراہم کی گئی ۔ ہمارے قافلے میں ایم ایس ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی ڈاکٹر ارشد علی صابر انکی اہلیہ، الاحسان بیکرز کے مالک ملک شہاب حیدر اور انکی اہلیہ ، تلہ گنگ سے ملک غلام شبیر مندیال اور انکی اہلیہ ، محکمہ تعلیم کے ریٹائرڈ سینئر ٹیچر ملک محمد ریاض کے علاوہ تلہ گنگ شہر ، ادلکہ، ڈھرنال، لاوہ، اسلام آباد ، ڈیرہ اسماعیل خان ، گوجر خان، واہ کینٹ، چکوال اور دیگر علاقوں سے حجاج کرام شامل تھے ۔ چونکہ شبیر ٹورز مجموعہ گلفراز میں ضم ہونے کیوجہ سے حجاج کرام کی تعداد 1300کے قریب ہو گئی ہے اور الحمد اﷲ مجموعہ گلفراز میں راقم کا کردار بھی کلیدی تھا اور بھرپور انداز سے حج آپریشن کا انتظام کیا گیا جسے پاکستانی حکومت، وزرات حج کے آفیسران اور سعودیہ وزارت حج کے آفیسران دوران مانیٹرنگ بہت زیادہ سراہا ۔ مجموعہ گلفراز میں امیر حاجی گلفراز خان ، حاجی شاہد نواز خان حاجی گل ریاض ، ہارون خان /شفیع ایاز خان ،حاجی خان ایاز خان، وجاہت شاہد نواز خان، چودھری آصف حسین ،عدیل ملک، اشتیاق ملک کی خدمات بلاشبہ قابل ستائش ہیں۔جنہوں نے شانہ بشانہ روز کی محنت اور مشقت سے اﷲتعالی کے مہمانوں کی خدمت کی ۔ 
قارئین محترم !جمعہ 3اکتوبر کو انشاء اﷲ حج اکبر ہو گا اور امسال حجاز مقدس آنے والے حجاج کرام خوش نصیب ہیں جنہیں نہ صرف حج کی سعادت نصیب ہو ئی بلکہ حج اکبر کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ راقم جن جن پاکستانیوں کو ملا انکے دل پاکستان کے لئے دھڑکتے ہیں ۔ پاکستان میں عدم، سیاسی استحکام کیوجہ سے وہ بہت غمگین ہیں ۔ سیلاب ، بڑھتی ہو ئی لاقانونیت ، مہنگائی، عدم تحفظ اور بالخصوص سیاسی استحکام نے پاکستانیوں کا سکون چھینا ہو ا ہے ۔
گذشہ ددنوں مکہ مکرمہ میں الجیاد ہوٹل کے مینجر ملک محمد یعقوب اعوان، ملک نثار دودیال ، ملک غلام محی الدین ۔جدہ اور مدینہ منورہ میں ہر دلعزیز شخصیت الحاج ملک محمد الہی اعوان سے راقم کی ملاقاتیں ہو ئیں ۔ مذکورہ شخصیات کا پاکستان میں دھرنوں کی سیاست اور سیاسی عدم استحکام پر سخت ردعمل تھا اور انہوں نے بتایا کہ سمندر پار بسنے والے پاکستانیوں کی اکثریت اس پر اپنی تشویش کا اظہار کرتی ہے اور دھرنوں کی سیاست کی مذمت کرتی ہے اور ملکی تعمیر وترقی میں اس قسم کے منفی رویوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے ۔ دیگر ذرائع سے آنے والے حجاز مقدس میں جن ضیوف الرحمن سے راقم کی ملاقاتیں ہو ئیں ان میں برادر محترم جناب قاضی عبد القادر صاحب جنرل سیکرٹری پریس کلب تلہ گنگ، رشید احمد صاحب، حاجی میاں عبد القیوم (غلہ منڈی)، میجر (ر)جاوید ملک ، حاجی عبد الوحید چشتی اور دیگر حجاج کرام شامل ہیں ۔ اﷲتعالی سب کا آنا مبارک کرے اور ملک پاکستان کو استحکام نصیب ہو ۔ وطن پاکستان کو بری نگاہ سے دیکھنے والوں سے محفوظ رکھے ۔ لاتعداد دوستوں نے بذریعہ فون، ایس ایم ایس، ای میلز کے ذریعے دعاؤں کی درخواست کی ۔ انشاء اﷲ یوم عرفہ کے دن بروز جمعہ 3اکتوبر کو انکے خصوصی دعاؤں کا اہتما م ہو گا۔ اﷲ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔
قارئین!6اکتوبر بروز پیر پاکستان میں عید الاضحی ہو گی۔ آپ سب کو پیشگی عید مبارک ۔ اپنا خیال رکھیے گا۔ اﷲ حافظ۔